EN हिंदी
خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ | شیح شیری
KHol sa oDhe hue lagte hain log

غزل

خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ

بلبیر راٹھی

;

خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ
بات کیا ہے اتنے چپ کیسے ہیں لوگ

بند کمروں سے ابھی نکلے ہیں لوگ
اور ہی انداز سے ملتے ہیں لوگ

جس کو دیکھو ہے وہی جھلسا ہوا
کس دہکتی آگ سے نکلے ہیں لوگ

کون کسی کی فکر کرتا ہے یہاں
اپنے اپنے جال میں الجھے ہیں لوگ

روشنی کی کیوں نہیں کرتے تلاش
کیوں اندھیرا بانٹتے پھرتے ہیں لوگ

منزلوں کا ذکر ہی بے سود ہے
گمرہی سے مطمئن لگتے ہیں لوگ

زہر پیتے ہیں مگر مرتے نہیں
کچھ نہ پوچھو کیسے کیا کرتے ہیں لوگ