EN हिंदी
کھول رہے ہیں موند رہے ہیں یادوں کے دروازے لوگ | شیح شیری
khol rahe hain mund rahe hain yaadon ke darwaze log

غزل

کھول رہے ہیں موند رہے ہیں یادوں کے دروازے لوگ

عزیز بانو داراب وفا

;

کھول رہے ہیں موند رہے ہیں یادوں کے دروازے لوگ
اک لمحے میں کھو بیٹھے ہیں صدیوں کے اندازے لوگ

نیند اچٹ جانے سے سب پر جھنجھلاہٹ سی طاری ہے
آنکھیں میچے باندھ رہے ہیں خوابوں کے شیرازے لوگ

شہروں شہروں پھرتے ہیں دیوانوں کا بہروپ بھرے
خود سے چھپ کر خود کو ڈھونڈ رہے ہیں بعضے بعضے لوگ

چلتی پھرتی لاشوں کے ہونٹوں کی ہنسی پر حیرت کیا
مردوں پر رکھا کرتے ہیں پھول ہمیشہ تازے لوگ