کھول کر ان سیاہ بالوں کو
روک دو صبح کے اجالوں کو
تیرے قدموں نے سرفراز کیا
ایک مدت کے پائمالوں کو
اک تبسم سے عمر بھر کے لیے
روشنی دے گئے خیالوں کو
ہم رہین غم حیات رہے
موت آئی نصیب والوں کو
مثل نجم سحر لرزتے ہیں
دیکھتا جا شکستہ حالوں کو
سیفؔ جب وہ نگاہ یاد آئی
آگ سی لگ گئی خیالوں کو
غزل
کھول کر ان سیاہ بالوں کو
سیف الدین سیف