EN हिंदी
کھول کر بات کا بھرم دونوں | شیح شیری
khol kar baat ka bharam donon

غزل

کھول کر بات کا بھرم دونوں

سجاد بلوچ

;

کھول کر بات کا بھرم دونوں
کم سخن ہو گئے ہیں ہم دونوں

ہو گئے اب جدا تو کیا کہیے
تھے خطا کار بیش و کم دونوں

جب ملیں گے تو بھول جائیں گے
جو ابھی سوچتے ہیں ہم دونوں

دفعتاً سامنا ہوا اپنا
جی اٹھے جیسے ایک دم دونوں

ہجرت و ہجر سے بچائے خدا
مجھ کو لاحق ہیں آج غم دونوں

اب یہی ایک راہ بچتی ہے
بس یہیں روک لیں قدم دونوں

مجھ پہ گزرا ہے وقت ہجر و وصال
دل نے دیکھے ہیں زیر و بم دونوں

جب نمٹ جائیں گے یہ ہنگامے
پھر سے ہو جائیں گے بہم دونوں