کھول کر بات کا بھرم دونوں
کم سخن ہو گئے ہیں ہم دونوں
ہو گئے اب جدا تو کیا کہیے
تھے خطا کار بیش و کم دونوں
جب ملیں گے تو بھول جائیں گے
جو ابھی سوچتے ہیں ہم دونوں
دفعتاً سامنا ہوا اپنا
جی اٹھے جیسے ایک دم دونوں
ہجرت و ہجر سے بچائے خدا
مجھ کو لاحق ہیں آج غم دونوں
اب یہی ایک راہ بچتی ہے
بس یہیں روک لیں قدم دونوں
مجھ پہ گزرا ہے وقت ہجر و وصال
دل نے دیکھے ہیں زیر و بم دونوں
جب نمٹ جائیں گے یہ ہنگامے
پھر سے ہو جائیں گے بہم دونوں
غزل
کھول کر بات کا بھرم دونوں
سجاد بلوچ