EN हिंदी
کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا | شیح شیری
khoe hue sahra tak ai baad-e-saba jaana

غزل

کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا

وارث کرمانی

;

کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا
وہ خاک جنوں میری آنکھوں سے لگا جانا

اب تک کوئی چنگاری رہ رہ کے چمکتی ہے
اے قافلۂ فردا یہ راکھ اڑا جانا

ہے دشت تمنا میں اب شام کا سناٹا
ہاں تیز قدم رکھتے اے اہل وفا جانا

ہم نیند کی چادر میں لپٹے ہوئے چلتے ہیں
اس بھیس میں اب ہم سے ملنا ہو تو آ جانا

آفاق کی سرحد پر سائے سے گریزاں ہیں
ان سوختہ جانوں کو اس پار نہ تھا جانا

تم دور سفر کر کے نزدیک سے لگتے ہو
اب پاس بہت آ کے ہم کو نہ جگا جانا

کیا اس سے شکایت ہو جس شوخ کی عادت ہو
کچھ بات دبا لینا کچھ آنکھ چرا جانا

ہم ذکر گل و بلبل کرتے ہوئے ڈرتے ہیں
اب سیکھ گیا ہے وہ ہر بات کا پا جانا