کھوئے گئے تو آئنہ کو معتبر کیا
ہم نے تری تلاش میں اپنا سفر کیا
بے گھر مسافروں کے مقدر میں خاک ہے
سو ہم نے گرد راہ کو دیوار و در کیا
اس مرکز جمال کے ہم بھی اسیر ہیں
جس مرکز جمال نے ہر دل میں گھر کیا
شہر وفا خموش ہے پتھر بنے بغیر
کیسا فریب کوہ ندا نے اثر کیا
بازو سمیٹتے ہیں درختوں پہ کچھ طیور
شاید کسی نے تذکرۂ بال و پر کیا
یادوں کی بھیڑ میں بھی ہے تنہائی ہم سفر
اس کی ہو خیر جس نے ہمیں در بدر کیا

غزل
کھوئے گئے تو آئنہ کو معتبر کیا
اقبال حیدر