کھو دئیے ہیں چاند کتنے اک ستارا مانگ کر
مطمئن ہیں کس قدر پھر بھی خسارہ مانگ کر
موج کے ہم راہ تھا تو سارا دریا ساتھ تھا
ہو گیا غرقاب لہروں سے کنارا مانگ کر
راکھ میں اب ڈھونڈھتا ہوں میں در و دیوار کو
گھر دیا ہے آگ کو میں نے شرارہ مانگ کر
تیری مرضی ہو تو بھر کشکول دل خالی مرا
میں نہیں لوں گا تجھے تجھ سے دوبارہ مانگ کر
اپنے پاؤں پر چلوں گا میں اپاہج تو نہیں
راستے کٹتے نہیں ہیں یوں سہارا مانگ کر
خواب کی مٹی کو گوندھوں گا لہو سے میں فگارؔ
گھر بنانا ہی نہیں دھرتی سے گارا مانگ کر

غزل
کھو دئیے ہیں چاند کتنے اک ستارا مانگ کر
سلیم فگار