خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو
بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو
فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے
وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو
نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید
جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو
قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں
گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو
نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات
جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو
طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن
یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو
نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر
کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو
وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے
جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو
یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں
پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو
کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے
وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو
جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا
وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو
غزل
خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو
حبیب احمد صدیقی