خزاںؔ میں خوبیاں ایسے بہت ہیں
خرابی ایک ہے بنتے بہت ہیں
کوئی رستہ کہیں جائے تو جانیں
بدلنے کے لیے رستے بہت ہیں
نئی دنیا کے سندر بن کے اندر
پرانے وقت کے پودے بہت ہیں
ہوئے جب سے زمانے بھر کے ہمراہ
ہم اپنے ساتھ بھی تھوڑے بہت ہیں
لگاوٹ ہے ستاروں سے پرانی
رقابت ہے مگر ملتے بہت ہیں
بہت ہوگا تو یہ سوچو گے شاید
کہ ہم بھی تھے یہاں جیسے بہت ہیں
ہے سب صورت کا چکر، خواب معنی
دکھائے ہیں بہت دیکھے بہت ہیں
جسارت دل میں کیا ہو فن میں کیا ہو
ملازم پیشہ ہیں ڈرتے بہت ہیں
کسی سے کیوں الجھتے کیا الجھتے
یہ دھاگے خود بہ خود الجھے بہت ہیں
تھکن چاروں طرف ہے چلتے جاؤ
پہنچتا کون ہے چلتے بہت ہیں
خفا ہم سے نہ ہو اے چشم جاناں
ہم اس انداز پر مرتے بہت ہیں
کہو یہ بھی خزاںؔ کہنے سے پہلے
جو کہتے کچھ نہیں کہتے بہت ہیں
غزل
خزاںؔ میں خوبیاں ایسے بہت ہیں
محبوب خزاں