خزاں کی آزمائش ہو گیا ہوں
میں اک جنگل کی چاہت میں ہرا ہوں
مری کشتی کبھی غرقاب کی تھی
ابھی تک میں سمندر سے خفا ہوں
پرندے ہو گئے ناراض مجھ سے
کہا جب میں بھی اڑنا چاہتا ہوں
کوئی وحشت سے بھی ملوائے مجھ کو
میں صحرا میں ابھی بالکل نیا ہوں
ابھی اک روشنی آئی تھی ملنے
سبب کیا ہے کہ میں بجھنے لگا ہوں
یہاں کے پیڑ سارے دم بخود ہیں
غضب ہے میں ہی کاٹا جا رہا ہوں
کوئی پانی میں کب تک رہ سکے گا
میں اشکوں سے تو آنکھوں تک بھرا ہوں
غزل
خزاں کی آزمائش ہو گیا ہوں
سہیل اختر