خزاں کے ہوش کسی روز میں اڑاتا ہوا
تمہیں دکھوں گا یقیناً بہار لاتا ہوا
تمام وار مری روح پر تھے لیکن میں
تمام عمر پھرا جسم کو بچاتا ہوا
خوشی سے کرنا روانہ مرے مکاں مجھ کو
میں ہار جاؤں اگر وحشتیں ہراتا ہوا
بہت اداس اکیلا ہمیشہ لوٹا کیوں
فلک پہ جو بھی دکھا مجھ کو جگمگاتا ہوا
مجھے بلانے مکاں آ نہ جائے صحرا تک
میں گھر سے آیا تو ہوں نقش پا مٹاتا ہوا
تمہاری یاد ہے بکھری پڑی کئی دن سے
لرز رہا ہوں میں اپنے ہی گھر میں آتا ہوا
ہے اک غریب کے بچہ سی زندگی اپنی
خوشی کا پرب بھی گزرے جسے رلاتا ہوا
یہ تیرے لمس کا جادو ہے یا وفا میری
بدن سے آ گیا باہر گلے لگاتا ہوا
غزل
خزاں کے ہوش کسی روز میں اڑاتا ہوا
عمران حسین آزاد