EN हिंदी
خزاں کا خوف بھی ہے موسم بہار بھی ہے | شیح شیری
KHizan ka KHauf bhi hai mausam-e-bahaar bhi hai

غزل

خزاں کا خوف بھی ہے موسم بہار بھی ہے

کویتا کرن

;

خزاں کا خوف بھی ہے موسم بہار بھی ہے
کبھی تمہارا کبھی اپنا انتظار بھی ہے

سمٹتی جاتی ہوں بڑھتی ہیں دوریاں جب بھی
عجیب شخص ہے نفرت بھی اس سے پیار بھی ہے

ہوا ہے زخمی مرا اعتماد جس دن سے
اداس ہی نہیں دل میرا بے قرار بھی ہے

الگ ہے سب سے طبیعت ہی اس کی ایسی ہے
وہ بے وفا ہے مگر اس پہ اعتبار بھی ہے

بہاریں جاتی ہیں جانے دو تم تو رک جاؤ
بہت دنوں سے طبیعت میں انتشار بھی ہے

کھڑی ہوں آج بھی میں سنگ میل کی صورت
کرنؔ کسی کا زمانہ سے انتظار بھی ہے