خزاں کا خوف بھی ہے موسم بہار بھی ہے
کبھی تمہارا کبھی اپنا انتظار بھی ہے
سمٹتی جاتی ہوں بڑھتی ہیں دوریاں جب بھی
عجیب شخص ہے نفرت بھی اس سے پیار بھی ہے
ہوا ہے زخمی مرا اعتماد جس دن سے
اداس ہی نہیں دل میرا بے قرار بھی ہے
الگ ہے سب سے طبیعت ہی اس کی ایسی ہے
وہ بے وفا ہے مگر اس پہ اعتبار بھی ہے
بہاریں جاتی ہیں جانے دو تم تو رک جاؤ
بہت دنوں سے طبیعت میں انتشار بھی ہے
کھڑی ہوں آج بھی میں سنگ میل کی صورت
کرنؔ کسی کا زمانہ سے انتظار بھی ہے

غزل
خزاں کا خوف بھی ہے موسم بہار بھی ہے
کویتا کرن