خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے
چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے
جفا جب تک کہ چونکاتی نہیں ہے
محبت ہوش میں آتی نہیں ہے
جو روتا ہوں تو ہنستا ہے زمانہ
جو سوتا ہوں تو نیند آتی نہیں ہے
تمہاری یاد کو اللہ رکھے
جب آتی ہے تو پھر جاتی نہیں ہے
کلی بلبل سے شوخی کر رہی ہے
ذرا پھولوں سے شرماتی نہیں ہے
جہاں میکش بھی جائیں ڈرتے ڈرتے
وہاں واعظ کو شرم آتی نہیں ہے
نہیں ملتی تو ہنگامے ہیں کیا کیا
جو ملتی ہے تو پی جاتی نہیں ہے
جوانی کی کہانی داور حشر
سر محفل کہی جاتی نہیں ہے
کہاں تک شیخ کو سمجھائیے گا
بری عادت کبھی جاتی نہیں ہے
گھڑی بھر کو جو بہلائے مرا دل
کوئی ایسی گھڑی آتی نہیں ہے
ہنسی بسملؔ کی حالت پر کسی کو
کبھی آتی تھی اب آتی نہیں ہے
غزل
خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے
بسملؔ عظیم آبادی