خزاں جب آئے تو آنکھوں میں خاک ڈالتا ہوں
ہرے درختوں کو بے برگ کس طرح دیکھوں
چمن کی آنکھ سے موسم کے حسن کو دیکھوں
بہار آئے تو پتوں کے پیرہن پہنوں
دل و نگاہ کا یہ فاصلہ بھی کیوں رہ جائے
اگر تو آئے تو میں دل کو آنکھ میں رکھ لوں
نہ پوچھ حال مرا ہوں وہ آتش خاموش
ذرا ہوا تو چلے اور میں بھڑک اٹھوں
انہی کے زہر سے ہے روشنی بھی آنکھوں میں
یہ پھول سانپ ہیں چوموں کہ احتیاط کروں
کبھی سمجھ میں نہ آیا وہ کون ہے کیا ہے
یہی بہت ہے کہ میں اپنے دل کو سمجھا لوں
اتار پھینک کبھی تو غبار سا ملبوس
یہ تیرا جسم ہے پیارے کہ روشنی کا ستوں
غزل
خزاں جب آئے تو آنکھوں میں خاک ڈالتا ہوں
شہزاد احمد