خرد سے دور غم تند خو میں اچھے تھے
اسی جنوں میں اسی ہاؤ ہو میں اچھے تھے
نکل کے آپ سے باہر خراب و خوار ہوئے
مدام غرق ہم اپنے لہو میں اچھے تھے
غرور زہد سے رنج گناہ بہتر تھا
خراب شغل شراب و سبو میں اچھے تھے
وہ رائیگاں بھی اگر تھی تو رائیگاں نہ کہو
کہ روز و شب مرے اس جستجو میں اچھے تھے
اگرچہ وہ بھی نہ تھے حسب آرزو لیکن
وہ دن کٹے جو تری آرزو میں اچھے تھے
ہوا ہوئی ہے موافق ہمیں وہیں لے چل
سفینہ راں ہم اسی آب جو میں اچھے تھے
غزل
خرد سے دور غم تند خو میں اچھے تھے
خورشید رضوی

