EN हिंदी
خرد کی فتنہ سامانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے | شیح شیری
KHirad ki fitna-samani jo pahle thi wo ab bhi hai

غزل

خرد کی فتنہ سامانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

رومانہ رومی

;

خرد کی فتنہ سامانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے
مرے دل کی پریشانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

اڑا دیں دھجیاں قانون تعزیرات کی ہم نے
جرائم کی فراوانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

غریبوں کے گھروں میں ایک بھی رونق نہیں باقی
بہار قصر سلطانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

نظر آتی ہیں ہر جانب نئی آبادیاں لیکن
دلوں کی خانہ ویرانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

اگرچہ اہل زر تعمیر کے وعدے تو کرتے ہیں
مگر تخریب سامانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

تبسم ہے لبوں پر یا تبسم کا جنازہ ہے
دلوں کی مرثیہ خوانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

غریبوں کے لہو سے قمقمے روشن ہیں محلوں کے
ہوس کی ظلم سامانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

کہیں صوبہ پرستی ہے کہیں فرقہ پرستی ہے
وہی تفریق انسانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

غلامی آج بھی ہے اور آقائی کی صورت میں
ادائے جبر سلطانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے

ہے رومیؔ خوش نوا بے شک ہو کوئی بھی یہاں عنواں
ادا شان غزل خوانی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے