EN हिंदी
خرد کے جملہ دساتیر سے مکرتے ہوئے | شیح شیری
KHirad ke jumla dasatir se mukarte hue

غزل

خرد کے جملہ دساتیر سے مکرتے ہوئے

سیماب ظفر

;

خرد کے جملہ دساتیر سے مکرتے ہوئے
پھر آج دل سے لگا بیٹھے نام برتے ہوئے

صدائیں دو کہ کوئی کاروان غم ٹھہرے
ہمیں تو راس نہ آئیں گے دن سنورتے ہوئے

جو محو رقص رہے رنگ و نور کے چو گرد
بکھر گئے ہیں تری لو کا طوف کرتے ہوئے

وہ تخت جاں تھا جہاں تیری تاج پوشی کی
سو کس جگر سے تجھے دیکھ لوں اترتے ہوئے

ہوا تھا حکم سفر دل مگر تھا رو گرداں
سو رہ میں بیٹھ رہے دل پہ دوش دھرتے ہوئے

تمہارے نام کے ہجے سنوار کر اس میں
اب اپنا نام ملائیں گے رنگ بھرتے ہوئے

جنوں پہ طعن کریں پارسائی کے واعظ
ہوس کے کوچۂ رنگین سے گزرتے ہوئے

سحر قریب ہوئی آؤ آنکھ میں بھر لیں
یہ پارہ پارہ تمنائیں خواب مرتے ہوئے