EN हिंदी
خرد بھی نا مہرباں رہے گی شعور بھی سر گراں رہے گا | شیح شیری
KHirad bhi na-mehrban rahegi shuur bhi sar-garan rahega

غزل

خرد بھی نا مہرباں رہے گی شعور بھی سر گراں رہے گا

فارغ بخاری

;

خرد بھی نا مہرباں رہے گی شعور بھی سر گراں رہے گا
ان آندھیوں میں مرا جنون وفا مگر ضو فشاں رہے گا

بدل سکے گی نہ فطرت سرکشی کو یہ گردش زمانہ
ازل سے جو آسماں بنا ہے ابد تلک آسماں رہے گا

الجھ الجھ کر مجھے حوادث کی تند لہروں سے کھیلنے دو
فسردہ ساحل کا خشک ماحول مجھ کو بار گراں رہے گا

ابھی سے میری نگاہیں اس دور کے تصور کو چھو رہی ہیں
بجھی بجھی بے کسوں کی آہوں پہ بجلیوں کا گماں رہے گا

غریب انسان کی خودی کو بغاوتیں گدگدا رہی ہیں
نہ یہ جبیں اب جبیں رہے گی نہ آستاں آستاں رہے گا