کھلایا پرتو رخسار نے کیا گل سمندر میں
حباب آ کر بنے ہر سمت سے بلبل سمندر میں
ہمارے آہ و نالہ سے زمانہ ہے تہ و بالا
کبھی ہے شور صحرا میں کبھی ہے غل سمندر میں
کسی دن مجھ کو لے ڈوبے گا ہجر یار کا صدمہ
چراغ ہستیٔ موہوم ہوگا گل سمندر میں
نہ چھیڑو مجھ کو میں غواص ہوں دریائے معنی کا
نہ ڈھونڈو مجھ کو مستغرق ہوں میں بالکل سمندر میں
تمہیں دریائے خوبی کہہ دیا غرق ندامت ہوں
کہاں یہ ناز و غمزہ عارض و کاکل سمندر میں
پڑا تھا عکس روئے نازنیں عرصہ ہوا اس کو
پر اب تک تیرتا پھرتا ہے شکل گل سمندر میں
اٹھی موج صبا جنباں سے شاخ آشیاں پیہم
چلی جاتی ہے گویا کشتی بلبل سمندر میں
وہ پائیں باغ میں پھرتے ہیں میں فکروں میں ڈوبا ہوں
تماشا ہے کہ گل گلشن میں ہے بلبل سمندر میں
ابھی تو سیر کو جانا لب دریا وہ سیکھے ہیں
ابھی تو دیکھیے کھلتے ہیں کیا کیا گل سمندر میں
خیال یار کیوں کر آ گیا طوفان گریہ میں
خدا معلوم کس شے کا بنایا پل سمندر میں
کبھی گریہ کا طوفاں ہے کبھی حیرت کا سناٹا
کبھی بالکل ہوں صحرا میں کبھی بالکل سمندر میں
وہ ظالم عاشق آزاری کی پرویںؔ مشق کرتا ہے
دکھا کر بلبلوں کو ڈالتا ہے گل سمندر میں
غزل
کھلایا پرتو رخسار نے کیا گل سمندر میں
پروین ام مشتاق