EN हिंदी
کھلا ہے پھول بہت روز میں مقدر کا | شیح شیری
khila hai phul bahut roz mein muqaddar ka

غزل

کھلا ہے پھول بہت روز میں مقدر کا

انور انجم

;

کھلا ہے پھول بہت روز میں مقدر کا
بس اب نہ بند ہو دروازہ تیرے مندر کا

تمام شہر ہے ہنگامۂ نشاط میں گم
مگر یہ کرب یہ سناٹا میرے اندر کا

کبھی نہ کھل کے ہنسا ہوں نہ رویا جی بھر کے
رکھا ہے میں نے ہمیشہ قدم برابر کا

صدا کسی کی ہو آتا ہے اپنے آپ سے خوف
وہ اجنبی ہوں کہ گھر کا رہا نہ باہر کا

گریز ہے اسے میری گلی سے یوں جیسے
یہاں جو آیا تو ہو جائے گا وہ پتھر کا

یہ گاہے گاہے کا ملنا بھی کوئی ملنا ہے
جو ہو سکے تو پتہ دیجئے کبھی گھر کا

کبھی کبھی کا ہو قصہ تو کوئی دکھ بھی سنے
اٹھائے بوجھ بھلا کون زندگی بھر کا

اسیر دام فریب زباں ہوا آخر
نہ اعتبار جسے آیا دیدۂ تر کا

غم زمانہ ہے وہ تیغ تشنہ کام انجمؔ
اڑے ہیں پاؤں اگر وار بچ گیا سر کا