EN हिंदी
کھینچ کر مجھ کو ہر اک نقش و نشاں لے جائے | شیح شیری
khinch kar mujhko har ek naqsh-o-nishan le jae

غزل

کھینچ کر مجھ کو ہر اک نقش و نشاں لے جائے

مبارک انصاری

;

کھینچ کر مجھ کو ہر اک نقش و نشاں لے جائے
کیا پتہ ذوق سفر میرا کہاں لے جائے

کام یہ ہر کس و ناکس کے نہیں ہے بس کا
جس کو سچ کہنا ہو خنجر پہ زباں لے جائے

صرف اک بار تبسم وہ اچھالے تو ادھر
اور بدلے میں مرا سارا جہاں لے جائے

جس کو دکھلانی ہو دنیا کو شجاعت اپنی
وہی سر اپنا سر نوک سناں لے جائے

کہیں روشن نظر آتے نہیں اب سر کے چراغ
عرصۂ جنگ سے وہ خود کو کہاں لے جائے

اپنی غزلوں میں جسے رنگ قزح بھرنا ہو
وہ مبارکؔ مرا اعجاز بیاں لے جائے