EN हिंदी
کھڑکی دروازہ کھولو | شیح شیری
khiDki darwaza kholo

غزل

کھڑکی دروازہ کھولو

صالح ندیم

;

کھڑکی دروازہ کھولو
جو بھی کہنا ہے کہہ دو

آڑی ترچھی ایک لکیر
دیکھو سوچو اور سمجھو

پیروں کی بیڑی کھنکی
سناٹو تم بھی بولو

کیسی خوشیاں کیسے غم
پتو ٹوٹو اور بکھرو

دل بدلا شکلیں بدلیں
تم بھی بدلو آئینو

انسانوں کی بستی ہے
اس جنگل میں کیوں ٹھہرو

گزرے دنوں کو یاد نہ کر
مردہ لوگوں پر مت رو

لوٹ گئیں سب آوازیں
تم بھی اپنے گھر جاؤ