کھیت سے بچ کر گزرے بستی کو ویرانی دے
وہ دریا کیا دریا جو ساگر کو پانی دے
شعر سنا کوئی ایسا جس سے لگے بدن میں آگ
نیند اڑ جائے جس سے ایسی کوئی کہانی دے
سوکھ رہے ہیں باغ بغیچے نہریں ریت ہوئیں
اے موسم کے مالک اک موسم بارانی دے
خود بنوائے محل دو محلے ہم کو سنائے حدیث
خود تو پہنے عبا قبا ہم کو عریانی دے
توڑ گئی دم آخر پیاسی رات اماوس کی
پیارے سورج اب تو اپنے چاند کو پانی دے
کون سنے گا تیرا قصہ رونے دھونے کا
لیلیٰ مجنوں شامل کر کوئی راجا رانی دے
اب تک تم نے باقرؔ ایسے کون سے کام کیے
کس امید پہ مالک تم کو نئی جوانی دے
غزل
کھیت سے بچ کر گزرے بستی کو ویرانی دے
باقر نقوی