خیمہ زن کون ہے آخر یہ کنار دل پر
کس کا افسوں ہے کہ روشن ہیں اشارے دل پر
شام اعجاز عجب آئی ہے تنہائی میں
کہکشاں سے اتر آئے ستارے دل پر
لگ گیا تھا کسی رخصت پہ جو مابین شباب
داغ اس زخم کا اب تک ہے ہمارے دل پر
جیسے محفوظ ہو تم میرے نہاں جذبوں میں
کیا اسی طرح میں زندہ ہوں تمہارے دل پر
جب کہ ہم بھی نہیں آمادہ بغاوت پہ ابھی
کیسے اڑتے ہوئے آخر ہیں شرارے دل پر
جو ملے دہر سے وابستہ تصاویر کے ساتھ
رکھ لیے درد تو ہم نے بھی وہ سارے دل پر
کون محجوب ہے آنکھوں سے بہ ظاہر راشدؔ
کس کے ہونے کے یوں ثابت ہیں نظارے دل پر
غزل
خیمہ زن کون ہے آخر یہ کنار دل پر
راشد طراز