کھیل موجوں کا خطرناک سہی کیا میں اس کھیل سے ڈر جاؤں گا
پھر کوئی لہر پکارے گی پھر میں دریا میں اتر جاؤں گا
خوبصورت ہیں یہ آنکھیں لیکن کیا میں آنکھوں میں ٹھہر جاؤں گا
خواب کی طرح سے دیکھا ہے تمہیں خواب کی طرح بکھر جاؤں گا
شکل بن جاؤں گا بادل میں کبھی پروا میں ابھر جاؤں گا
میں کسی یاد کا جھونکا بن کر تیرے آنگن سے گزر جاؤں گا
یہ محبت مجھے طاقت دے گی حوصلہ دے گی یہ ہمت دے گی
روشنی تیری نظر سے لے کر ہر اندھیرے سے گزر جاؤں گا
کوئی مقصد نہ کوئی مستقبل کوئی ساتھی نہ ہے کوئی منزل
تم کو جانا ہے جہاں تم جاؤ کیا بتاؤں میں کدھر جاؤں گا
کیوں نہیں مجھ کو بھی پیارا ہے وطن ہے مگر ساری زمیں اپنا چمن
کسی آنگن میں کھلا ہوں واقفؔ کسی دھرتی پہ بکھر جاؤں گا
غزل
کھیل موجوں کا خطرناک سہی کیا میں اس کھیل سے ڈر جاؤں گا
واقف رائے بریلوی