خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا
تو زخم زخم مرے دل کا مسکرانے لگا
مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں
میں کیوں تمہاری محبت کو آزمانے لگا
کیا ہے یاد مجھے میرے بعد دنیا نے
ہوا جو غرق تو ساحل قریب آنے لگا
نہ چھین مجھ سے سرور شب فراق نہ چھین
قرار دل کو نہ دستک کے تازیانے لگا
مثال اپنی تو ہے اس درخت کی کہ جسے
لگا جو سنگ تو بدلے میں پھل گرانے لگا
ہر ایک سمت ریا کی تمازتیں ہیں اسدؔ
جو ہو سکے تو محبت کے شامیانے لگا
غزل
خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا
اسد جعفری