EN हिंदी
خیال وہ بھی مرے ذہن کے مکان میں تھا | شیح شیری
KHayal wo bhi mere zehn ke makan mein tha

غزل

خیال وہ بھی مرے ذہن کے مکان میں تھا

احسن امام احسن

;

خیال وہ بھی مرے ذہن کے مکان میں تھا
جو آج تک نہ مکین گماں کے دھیان میں تھا

وہ دیکھتا رہا حسرت سے آسماں کی طرف
چھپا ہوا وہ پرندہ جو سائبان میں تھا

زمیں پہ کوئی سماعت تھی منتظر میری
صدا کی شکل معلق میں آسمان میں تھا

مرا نصیب تو خوشیوں کی بھیڑ میں اکثر
چراغ کی طرح روشن کسی دکان میں تھا

کبھی مجھے بھی تو کرنا پڑے گا سمجھوتہ
بہت دنوں سے یہ خدشہ مرے گمان میں تھا

ترے سوال کا کیسے جواب دیتا میں
کہ جب میں کھویا ہوا فکر کی اڑان میں تھا

وہی تو آگ لگاتا پھرا گلستاں میں
جو احسنؔ اہل چمن میں نہ باغبان میں تھا