خیال اس کا کہاں سے کہاں نہیں جاتا
وہاں بھی جائے کہ جس جا گماں نہیں جاتا
بس اپنے باغ میں محو خرام رہتا ہے
کہ خود سے دور وہ سرو رواں نہیں جاتا
حجاب اس کے مرے بیچ اگر نہیں کوئی
تو کیوں یہ فاصلۂ درمیاں نہیں جاتا
کوئی ٹھہرتا نہیں یوں تو وقت کے آگے
مگر وہ زخم کہ جس کا نشاں نہیں جاتا
نہ جانے اس کی زباں میں ہے کیا اثر فرخؔ
کہ اس سے ہو کے کوئی بدگماں نہیں جاتا
غزل
خیال اس کا کہاں سے کہاں نہیں جاتا
فرخ جعفری