EN हिंदी
خیال ان کا ستائے جا رہا ہے | شیح شیری
KHayal un ka satae ja raha hai

غزل

خیال ان کا ستائے جا رہا ہے

شاہد غازی

;

خیال ان کا ستائے جا رہا ہے
مری ہستی مٹائے جا رہا ہے

خدا کے واسطے تم آ بھی جاؤ
تمہارا غم رلائے جا رہا ہے

پلٹ کر دیکھنا لازم ہے اس کو
صدائیں جو لگائے جا رہا ہے

مجھے پتھر سمجھ کر راستے کا
کوئی ٹھوکر لگائے جا رہا ہے

تمہارے قرب کا احساس دل بر
مری دھڑکن بڑھائے جا رہا ہے

مسیحا جس کو سمجھا تھا میں غازیؔ
وہ میرا دکھ بڑھائے جا رہا ہے