خیال ان کا ستائے جا رہا ہے
مری ہستی مٹائے جا رہا ہے
خدا کے واسطے تم آ بھی جاؤ
تمہارا غم رلائے جا رہا ہے
پلٹ کر دیکھنا لازم ہے اس کو
صدائیں جو لگائے جا رہا ہے
مجھے پتھر سمجھ کر راستے کا
کوئی ٹھوکر لگائے جا رہا ہے
تمہارے قرب کا احساس دل بر
مری دھڑکن بڑھائے جا رہا ہے
مسیحا جس کو سمجھا تھا میں غازیؔ
وہ میرا دکھ بڑھائے جا رہا ہے
غزل
خیال ان کا ستائے جا رہا ہے
شاہد غازی