EN हिंदी
خیال و فکر جہاں زاویے بدلتے ہیں | شیح شیری
KHayal-o-fikr jahan zawiye badalte hain

غزل

خیال و فکر جہاں زاویے بدلتے ہیں

ریاست علی تاج

;

خیال و فکر جہاں زاویے بدلتے ہیں
وہیں سے نت نئے اسلوب چل نکلتے ہیں

وہ رات کو پئے گل گشت جب نکلتے ہیں
فلک پہ چاند ستاروں کے دل مچلتے ہیں

مرے کلام میں مفروضہ‌‌ و قیاس نہیں
یہ تجربات ہیں جو شعر بن کے ڈھلتے ہیں

رخ حیات کو ہر زاویے سے دیکھا ہے
مشاہدات کے قالب میں شعر ڈھلتے ہیں

قدم قدم پہ حیا سوزیوں کا عالم ہے
سنور سنور کے نگاران شہر چلتے ہیں

تمہارے غم سے عبارت ہے زندگی میری
تمہارے یاد کے دل میں چراغ چلتے ہیں

ہیں کامران وہی لوگ آج دنیا میں
جو وقت اور زمانے کے ساتھ چلتے ہیں

گداز قلب بھی ہوتا ہے کچھ انہیں کو نصیب
جو درد مند ہیں ان کے ہی دل پگھلتے ہیں

رہ حیات میں ایسا بھی ہے مقام کوئی
جہاں جنون و خرد ساتھ ساتھ چلتے ہیں

جدا ہے رنگ سخن تاجؔ ہر سخن ور کا
بے اعتبار نظر فکر و فن بدلتے ہیں