خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
لب خموش ہی افسانہ ہو تو کیا کہئے
میں جانتا ہوں کہ توہین وضع ہے مستی
یہی شریعت مے خانہ ہو تو کیا کہئے
جمال دوست کو دیوانگی سے کیا مطلب
دل اپنے آپ ہی دیوانہ ہو تو کیا کہئے
ہو کوئی اور تو اس سے گلا مناسب ہے
مگر جو دوست ہے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
بغیر ساغر مے بھی ہے کیف کا امکان
ترا خیال ہی رندانہ ہو تو کیا کہئے
میں چاہتا ہوں کہوں رنج عشق کی روداد
سلوک حسن حریفانہ ہو تو کیا کہئے
عزیز دل سے زیادہ ہے مجھ کو عصمت راز
ہر اک طرف یہی افسانہ ہو تو کیا کہئے
مذاق بزم کی اصلاح ممکنات سے ہے
فروغ شمع ہی پروانہ ہو تو کیا کہئے
شباب دعوت رنگینیٔ نظر ہے ضیاؔ
مگر نظر ہی فقیہانہ ہو تو کیا کہئے

غزل
خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
محمد صادق ضیا