خیال میں ترے پیکر کو چوم لیتے ہیں
ہم اہل ظرف ہیں پتھر کو چوم لیتے ہیں
بڑھا گئے تھے وہ عزت ہمارے گھر کی کبھی
اس احترام میں ہم در کو چوم لیتے ہیں
حیات نو کی جھلک جو ہمیں دکھاتا ہے
نظر سے ہم اسی منظر کو چوم لیتے ہیں
غریب خانے میں ہوتی ہے روشنی جس سے
ہم اس چراغ منور کو چوم لیتے ہیں
بڑا سکون ہمیں گھر میں آ کے ملتا ہے
ہم اپنے بچوں کے جب سر کو چوم لیتے ہیں

غزل
خیال میں ترے پیکر کو چوم لیتے ہیں
رہبر جونپوری