خیال کے پھول کھل رہے ہیں بہار کے گیت گا رہا ہوں
ترے تصور کی سرزمیں پر نئے گلستاں کھلا رہا ہوں
میں سارے برباد کن خیالوں کو دل کا مہماں بنا رہا ہوں
خرد کی محفل اجڑ چکی ہے جنوں کی محفل سجا رہا ہوں
ادھر ہے آنکھوں میں اک شرارت ادھر ہے سینے میں اک چبھن سی
نظر سے وہ مسکرا رہے ہیں جگر سے میں مسکرا رہا ہوں
مری مصیبت یہ کہہ رہی ہے خدا مجھے آزما رہا ہے
مری عبادت یہ کہہ رہی ہے خدا کو میں آزما رہا ہوں
خودی کے ماتھے پہ داغ سجدہ ہوس کے چہرے پہ تیرگی ہے
میں ایک آئینہ لے کے دونوں کو دور ہی سے دکھا رہا ہوں
لیا نہ دل نے مرے سہارا ابھرتی موجوں کا شورشوں کا
میں اپنی اس کشتیٔ شکستہ کا آپ ہی نا خدا رہا ہوں
ملے نہ میری غزل میں کیوں کر شعور ہستی سرور مستی
جمیلؔ کے میکدے سے احساںؔ شراب ادراک پا رہا ہوں
غزل
خیال کے پھول کھل رہے ہیں بہار کے گیت گا رہا ہوں
احسان دربھنگوی