خیال یار کا سکہ اچھالنے میں گیا
جنوں خریطۂ زر تھا سنبھالنے میں گیا
لہو جگر کا ہوا صرف رنگ دست حنا
جو سودا سر میں تھا صحرا کھنگالنے میں گیا
گریز پا تھا بہت حسن پارۂ ہستی
سو عرصہ عمر کا زنجیر ڈالنے میں گیا
نہال یادوں کی چاندی میں شب تو دن سارا
کسی کے ذکر کا سونا اچھالنے میں گیا
تھی دست گاہ بیاں پر مگر کمال ہنر
غم حیات کے قصوں کو ٹالنے میں گیا
غزل
خیال یار کا سکہ اچھالنے میں گیا
امیر حمزہ ثاقب