خیال ترک الفت ہم نشینو آ ہی جاتا ہے
وفور بے دلی میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
تباہی کی گھڑی شاید زمانے پر نہیں آئی
ابھی اپنے کئے پر آدمی شرما ہی جاتا ہے
نگاہ دوست کے آگے سپر لانا ہے لا حاصل
یہ تیر نیم کش قلب و جگر برما ہی جاتا ہے
نظر آتا نہیں جس کو ہجوم شوق میں کچھ بھی
فریب رہنما اکثر وہ رہ رو کھا ہی جاتا ہے
نہیں نرمک خرامی کارواں کی بے سبب کوثرؔ
خموشی سے جو اٹھتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

غزل
خیال ترک الفت ہم نشینو آ ہی جاتا ہے
کوثر نیازی