خیال صبح کی رعنائیاں کچھ اور کہتی ہیں
اندھیری رات کی تنہائیاں کچھ اور کہتی ہیں
کبھی جام طرب کی سمت دست شوق بڑھتا ہے
تو اس کام و دہن کی تلخیاں کچھ اور کہتی ہیں
مری نظروں کی پہنائی میں ہیں اجزائے دو عالم
گمان و وہم کی پرچھائیاں کچھ اور کہتی ہیں
فراغت چاہتی ہے زندگی دو چار لمحے کی
مگر راہ وفا کی سختیاں کچھ اور کہتی ہیں
مری بے خواب آنکھوں میں خیال صبح فردا ہے
دل بیدار کی خاموشیاں کچھ اور کہتی ہیں

غزل
خیال صبح کی رعنائیاں کچھ اور کہتی ہیں
ساجدہ زیدی