خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میں
وہ بوئے غنچۂ گل کو نہیں گنتا کسی بو میں
تعجب نیں ہے اس کی آب سے بوئے گلاب آئے
پڑے گر عکس اس گل رو کے رو کا جس لب جو میں
مقابل ہو ہمارے کسب تقلیدی سے کیا طاقت
ابھی ہم محو کر دیتے ہیں آئینہ کو اک ہو میں
ہے کس کے زلف کا سودا تجھے اے عشق بتلا دے
ہمیشہ عطر عنبر کی سی بو آتی ہے تجھ خو میں
غزل
خیال گل بدن آ کر بسا ہو جس کے پہلو میں
عشق اورنگ آبادی