EN हिंदी
خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا | شیح شیری
KHayal dil ko hai us gul se aashnai ka

غزل

خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا

ولی اللہ سرہندی اشتیاق

;

خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا
نہیں صبا کو ہے دعویٰ جہاں رسائی کا

کہیں وہ کثرت‌ عشاق سے گھمنڈ میں آ
ڈروں ہوں میں کہ نہ دعویٰ کرے خدائی کا

مجھے تو ڈھو کے تھا زاہد پر اک نگاہ سے آج
غرور کیا ہوا وہ تیری پارسائی کا

جہاں میں دل نہ لگانے کا لیوے پھر کوئی نام
بیاں کروں میں اگر تیری بے وفائی کا

نہ چھوڑا مار بھی کھا کر گزر گلی کا تری
رقیب کو مرے دعویٰ ہے بے حیائی کا

نہیں خیال میں لاتے وہ سلطنت جم کی
غرور ہے جنہیں در کی ترے گدائی کا

جفائے یار سے مت اشتیاقؔ پھیر کے منہ
خیال کیجو کہیں اور جبہ سائی کا