خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا
نہیں صبا کو ہے دعویٰ جہاں رسائی کا
کہیں وہ کثرت عشاق سے گھمنڈ میں آ
ڈروں ہوں میں کہ نہ دعویٰ کرے خدائی کا
مجھے تو ڈھو کے تھا زاہد پر اک نگاہ سے آج
غرور کیا ہوا وہ تیری پارسائی کا
جہاں میں دل نہ لگانے کا لیوے پھر کوئی نام
بیاں کروں میں اگر تیری بے وفائی کا
نہ چھوڑا مار بھی کھا کر گزر گلی کا تری
رقیب کو مرے دعویٰ ہے بے حیائی کا
نہیں خیال میں لاتے وہ سلطنت جم کی
غرور ہے جنہیں در کی ترے گدائی کا
جفائے یار سے مت اشتیاقؔ پھیر کے منہ
خیال کیجو کہیں اور جبہ سائی کا
غزل
خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا
ولی اللہ سرہندی اشتیاق