خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں
سخاۓ ہجر نے اب بھی نمائشیں دی ہیں
یہ اب جو خواب زمانوں نے دستکیں دی ہیں
پس مراد حقائق کی منزلیں دی ہیں
مرے لباس کے پیوند مفلسی پہ نہ جا
مرے جنوں نے محبت کو خلعتیں دی ہیں
مرے مزاج کا موسم عجیب موسم ہے
کہ جس کے غم نے بھی ہستی کو رونقیں دی ہیں
ہم اہل عشق نے تاوان راحتیں دے کر
حدود عرصۂ وحشت کو وسعتیں دی ہیں
چلو یہ بات غلط ہے تو پھر بتاؤ مجھے
ہر ایک ہاتھ میں کس کس نے مشعلیں دی ہیں
شعور جائے تو فرصت سے نیند بھی آئے
فشار ذات نے فرحتؔ کو رنجشیں دی ہیں
غزل
خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں
فرحت عباس