خوف زدہ تھے کون سے لوگ ان شیر دلیروں سے
کوئی تو اتنا پوچھے ان مٹی کے ڈھیروں سے
دن کے دیس سے اڑ آتے ہیں میری آنکھوں میں
ساتھ نبھانا بھول گئے تھے رنگ اندھیروں سے
تیر چلانے والے گھر کیا لوٹ بھی پائیں گے؟
کیا یہ پنچھی دم دے دیں گے دور بسیروں سے
شام کا تارا، صبح کا پہلا تارا ٹھہرے گا
حجلۂ وصل میں رات رہے گی، بات سویروں سے
کوئی اپنے گھر کا رستہ بھول سکا ہے کبھی؟
کیا جانے کیوں اڑ اڑ جائیں کاگ منڈیروں سے
خاک اڑے تو میرے ہاتھوں میری خاک اڑے
مجھ کو ڈر لگتا ہے، سانپوں اور سپیروں سے
مجھ کو جاننے والے خالدؔ جان نہ پائیں گے
اس چکر میں نکلا ہوں میں، کتنے پھیروں سے

غزل
خوف زدہ تھے کون سے لوگ ان شیر دلیروں سے
خالد احمد