EN हिंदी
خوف زدہ تھے کون سے لوگ ان شیر دلیروں سے | شیح شیری
KHauf-zada the kaun se log in sher-dileron se

غزل

خوف زدہ تھے کون سے لوگ ان شیر دلیروں سے

خالد احمد

;

خوف زدہ تھے کون سے لوگ ان شیر دلیروں سے
کوئی تو اتنا پوچھے ان مٹی کے ڈھیروں سے

دن کے دیس سے اڑ آتے ہیں میری آنکھوں میں
ساتھ نبھانا بھول گئے تھے رنگ اندھیروں سے

تیر چلانے والے گھر کیا لوٹ بھی پائیں گے؟
کیا یہ پنچھی دم دے دیں گے دور بسیروں سے

شام کا تارا، صبح کا پہلا تارا ٹھہرے گا
حجلۂ وصل میں رات رہے گی، بات سویروں سے

کوئی اپنے گھر کا رستہ بھول سکا ہے کبھی؟
کیا جانے کیوں اڑ اڑ جائیں کاگ منڈیروں سے

خاک اڑے تو میرے ہاتھوں میری خاک اڑے
مجھ کو ڈر لگتا ہے، سانپوں اور سپیروں سے

مجھ کو جاننے والے خالدؔ جان نہ پائیں گے
اس چکر میں نکلا ہوں میں، کتنے پھیروں سے