خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا
تیز ہیں کتنی ہوائیں اس کا اندازہ لگا
خشک تھا موسم مگر برسی گھٹا جب یاد کی
دل کا مرجھایا ہوا غنچہ تر و تازہ لگا
روشنی سی کر گئی قربت کسی کے جسم کی
روح میں کھلتا ہوا مشرق کا دروازہ لگا
یہ اندھیری رات بے نام و نشاں کر جائے گی
اپنے چہرے پر سنہری دھوپ کا غازہ لگا
ذہن پر جس دم ترا احساس غالب آ گیا
دور تک بکھرا ہوا لفظوں کا شیرازہ لگا
ہم خیال و ہم نوا بھی تجھ کو مل ہی جائیں گے
رات کے تنہا مسافر کوئی آوازہ لگا

غزل
خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا
شاہد میر