EN हिंदी
خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا | شیح شیری
KHauf se ab yun na apne ghar ka darwaza laga

غزل

خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا

شاہد میر

;

خوف سے اب یوں نہ اپنے گھر کا دروازہ لگا
تیز ہیں کتنی ہوائیں اس کا اندازہ لگا

خشک تھا موسم مگر برسی گھٹا جب یاد کی
دل کا مرجھایا ہوا غنچہ تر و تازہ لگا

روشنی سی کر گئی قربت کسی کے جسم کی
روح میں کھلتا ہوا مشرق کا دروازہ لگا

یہ اندھیری رات بے نام و نشاں کر جائے گی
اپنے چہرے پر سنہری دھوپ کا غازہ لگا

ذہن پر جس دم ترا احساس غالب آ گیا
دور تک بکھرا ہوا لفظوں کا شیرازہ لگا

ہم خیال و ہم نوا بھی تجھ کو مل ہی جائیں گے
رات کے تنہا مسافر کوئی آوازہ لگا