خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی
میں پیمبر تو نہیں ہوں کہ بچا لے مجھے کوئی
اپنی دنیا کے مہ و مہر سمیٹے سر شام
کر گیا جادۂ فردا کے حوالے مجھے کوئی
اتنی دیر اور توقف کہ یہ آنکھیں بجھ جائیں
کسی بے نور خرابے میں اجالے مجھے کوئی
کس کو فرصت ہے کہ تعمیر کرے از سر نو
خانۂ خواب کے ملبے سے نکالے مجھے کوئی
اب کہیں جا کے سمیٹی ہے امیدوں کی بساط
ورنہ اک عمر کی ضد تھی کہ سنبھالے مجھے کوئی
کیا عجب خیمۂ جاں تیری طنابیں کٹ جائیں
اس سے پہلے کہ ہواؤں میں اچھالے مجھے کوئی
کیسی خواہش تھی کہ سوچو تو ہنسی آتی ہے
جیسے میں چاہوں اسی طرح بنا لے مجھے کوئی
تیری مرضی مری تقدیر کہ تنہا رہ جاؤں
مگر اک آس تو دے پالنے والے مجھے کوئی
غزل
خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی
افتخار عارف