EN हिंदी
خوف جاں آس پاس رہتا ہے | شیح شیری
KHauf-e-jaan aas-pas rahta hai

غزل

خوف جاں آس پاس رہتا ہے

احسن امام احسن

;

خوف جاں آس پاس رہتا ہے
دل یوں ہی کب اداس رہتا ہے

دیکھ کر اب لہو کی ارزانی
ہر کوئی بد حواس رہتا ہے

سارے انساں بچھڑ گئے تو کیا
میرا غم میرے پاس رہتا ہے

جب سے دل کو دیئے ہیں اس نے زخم
کرب و غم آس پاس رہتا ہے

آدمی جا بسے گا سورج پر
ایسا بھی کیا قیاس رہتا ہے

خوف دریا اسے نہیں ہوتا
جو سمندر شناس رہتا ہے