ختم جس دن شورش آہ و فغاں ہو جائے گی
زندگی انسان پر بار گراں ہو جائے گی
قوت احساس اگر صرف فغاں ہو جائے گی
نقش فریادی مری عمر رواں ہو جائے گی
گر یہی دیوانگی ہے رہروان عشق کی
منزل مقصود گرد کارواں ہو جائے گی
آج سجدوں کی فراوانی سے ہوتا ہے گماں
خود جبین شوق تیرا آستاں ہو جائے گی
جو شب فرقت گرے گی دیدہ ہائے شوق سے
وہ لہو کی بوند بحر بیکراں ہو جائے گی
گلستاں پر بجلیوں کی یورشیں ہونے تو دو
ہر کلی صحن چمن کی آشیاں ہو جائے گی
بادہ نوشی میں اگر حسن عقیدت ہے شریک
بزم ساقی سجدہ گاہ دو جہاں ہو جائے گی

غزل
ختم جس دن شورش آہ و فغاں ہو جائے گی
مسعود میکش مراد آبادی