ختم ہوئی شب وفا خواب کے سلسلے گئے
جس در نیم باز کے پیش تھے مرحلے گئے
جو رگ ابر و باد سے تا بہ رگ جنوں رہیں
عشق کی وہ حکایتیں حسن کے وہ گلے گئے
شکر و سپاس کا مزہ دے ہی گیا سکوت یار
وصل و فراق سے الگ درد کے حوصلے گئے
اک مرے ہم کنار کی مجھ سے قریب آ کے رات
خیمۂ درد ہو گئی قرب کے ولولے گئے
دشت میں قحط آب سے ہجرت طائراں کے بعد
سیر پسند و تر نفس ابر کے قافلے گئے
اے یہ فسون دلبری تازہ رخ و سیاہ چشم
منزل قرب بھی گئی تجھ سے نہ فاصلے گئے
نیند میں مہوشان شہر بوسۂ عاشقاں کی خیر
شب بہ ہوائے نرم سیر صبح ہوئی صلے گئے
اے رخ تازہ جہاں رات تو اب بھی ہے گراں
شمع ہزار رنگ تک یوں ترے سلسلے گئے
دامن دل کی اوٹ سے ایک شب فراق کیا
دور تغیر جہاں سب ترے قافلے گئے
غزل
ختم ہوئی شب وفا خواب کے سلسلے گئے
عزیز حامد مدنی