ختم ہے بادل کی جب سے سائبانی دھوپ میں
آگ ہوتی جا رہی ہے زندگانی دھوپ میں
چاند کی آغوش میں ہونے سے جس کا ہے وجود
کھل سکے گی کیا بھلا وہ رات رانی دھوپ میں
اس کی فرقت کی تپش میں میں جھلس کر رہ گئی
ورنہ اتنی تاب کب تھی آسمانی دھوپ میں
کچھ چمکتا سا نظر آنے لگا ہے ریت میں
بڑھ رہی ہے میرے قدموں کی روانی دھوپ میں
ایک سایہ ساتھ میرے ہم سفر بن کر مرا
لکھ رہا ہے پھر کوئی تازہ کہانی دھوپ میں
غزل
ختم ہے بادل کی جب سے سائبانی دھوپ میں
چاندنی پانڈے