خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے
عجب شور قیامت میں گھرے تھے کان میرے
فضا میں ایک لحظے کے لیے جب برق چمکی
اندھیری رات سے طے ہو گئے پیمان میرے
لہو جمنے کے نقطے پر جو پہنچا تو اچانک
الٹ ڈالے ہوا نے مجھ پہ آتش دان میرے
میں مٹی آگ اور پانی کی صورت منتشر تھا
پھر اک دن سب عناصر ہو گئے یک جان میرے

غزل
خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے
رفیق سندیلوی