EN हिंदी
خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی | شیح شیری
KHat uske apne hath ka aata nahin koi

غزل

خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی

اظہر عنایتی

;

خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی
کیا حادثہ ہوا ہے بتاتا نہیں کوئی

گڑیاں جوان کیا ہوئیں میرے پڑوس کی
آنچل میں جگنوؤں کو چھپاتا نہیں کوئی

جب سے بتا دیا ہے نجومی نے میرا نام
اپنی ہتھیلیوں کو دکھاتا نہیں کوئی

کچھ اتنی تیز دھوپ نئے موسموں کی ہے
بیتی ہوئی رتوں کو بھلاتا نہیں کوئی

دیکھا ہے جب سے خود کو مجھے دیکھتے ہوئے
آئینہ سامنے سے ہٹاتا نہیں کوئی

اظہرؔ یہاں ہے اب مرے گھر کا اکیلا پن
سورج اگر نہ ہو تو جگاتا نہیں کوئی