خط نے آ کر کی ہے شاید رحم فرمانے کی عرض
تب تو اب سنتا ہے ہنس کر مجھ سے دیوانے کی عرض
شام غربت ہم سے مجروحوں کی ہے فریاد رس
زلف کی چھاتی پھٹی ہے سنتے ہی شانے کی عرض
بوسۂ لعل بتاں جو لے سو ہو بے آبرو
اتنی ہی خدمت میں مستوں کی ہے پیمانے کی عرض
گوش گل میں سب پھپھولے پڑ گئے شبنم کے ہاتھ
آگ تھی بلبل کی فریادوں کے افسانے کی عرض
فصل گل آتے ہی عزلتؔ دل زبان آہ سے
میری خدمت میں کرے ہے دشت میں جانے کی عرض
غزل
خط نے آ کر کی ہے شاید رحم فرمانے کی عرض
ولی عزلت