خط میں اس کو کیسے لکھیں کیا پانا کیا کھونا ہے
دوری میں تو ہو نہیں سکتا جو آپس میں ہونا ہے
نیند کا پنچھی آ پہنچا ہے وحشی دل کی بات نہ سن
مل بھی گئے تو آخر تھک کر گہری نیند ہی سونا ہے
وہ آیا تو سارے موسم بدلے بدلے لگتے ہیں
یا کانٹوں کی سیج بچھی تھی یا پھولوں کا بچھونا ہے
ابھی تو خشک بہت ہے موسم بارش ہو تو سوچیں گے
ہم نے اپنے ارمانوں کو کس مٹی میں بونا ہے
ہم کو نصیحت کرنے والے خود بھی یہی کچھ کرتے ہیں
تم کیا قصے لے بیٹھے ہو یہ عمروں کا رونا ہے
کانچ کی گڑیاں طاق میں کب تک آپ سجائے رکھیں گے
آج نہیں تو کل ٹوٹے گا جس کا نام کھلونا ہے
بڑے بڑے دعوے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے قد شہزادؔ
پھانکنی ہے کچھ خاک ان کو کچھ پانی انہیں بلونا ہے
غزل
خط میں اس کو کیسے لکھیں کیا پانا کیا کھونا ہے
شہزاد احمد